(حصہ 06)آؤ سیکھیں اللّٰہ عزَّوجَل کے نام

Talha Tariq
11 min readNov 29, 2021

--

بِسْمِ ّللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيم

وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا
یہ میری اس سیریز کا چھٹا حصہ ہے👇🏻

پہلا حصہ: پڑھنے کے لیے کلک کریں (سیریز کا تعارف+ پہلے 3 نام — الرحمن، الرحیم، الملک)

دوسرا حصہ: پڑھنے کے لیے کلک کریں (4 نام: القدوس ، المومن ، السلام ، المھیمین)

تیسرا حصہ: پڑھنے کے لیے کلک کریں (4 نام: العزیز، الجبار، المتکبیر، الخالق)

چوتھا حصہ: پڑھنے کے لیے کلک کریں (4 نام: الباری ، المصور ، الغفار ، القہار)

پانچواں حصہ: پڑھنے کے لیے کلک کریں (4 نام: الوہاب، الرزاق، الفتح، العلیم)

اس تحریرمیں اگلے مزید پانچ ناموں کا احاطہ کرنے والا ہوں ان شاء اللہ! آئیے اپنے ایمان کو بڑھانے اور اللہ تعالی کوصیحیح معنوں میں جاننے اور پہچاننے کے لیے پڑھیں

← (ہر شے پر قبضہ رکھنے والا) القابض

← الباسط (وسعت دینے والا)

القابض وہ ہستی ہے، جو غنی بھی کرتا ہے اورغریب بھی کرتا ہے۔ ایسی ہستی جو اپنی خوشی سے اپنے بندوں سے کچھ بھی چھین لینے والا ہے چاہے وہ روح ہو یا رزق۔ وہ ذات جوچاہے واپس لے لیتا ہے۔

اللہ الباسط ہے، جو چیزوں کو بڑھاتا ہےاور راستے کشادہ کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے کثرت سے عطا ہےاوراپنی مرضی اور حکمت کے مطابق رزق اور رحمتوں سے نوازتا ہے۔

یہ دونوں اسماء اللہ کے ان ناموں میں سے ہیں جو ہمیشہ جوڑے کی شکل میں پائے جاتے ہیں، اکثر ان کا الگ الگ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا امتزاج ہی اک مکمل سمجھ بوجھ دیتا ہے۔

قابض جڑ ق –ب -د (قبد)سے نکلا ہے ، جس سے مراد روکنا کے ہے۔ یہ ان معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے:

← کسی چیز کو پکڑنا

← کسی چیز کی مکمل ملکیت حاصل ہونا

باسط جڑ ب-س-ت (بسط)سے نکلا ہے ، جس سے مراد وسعت ہے اور یہ ان معنوں کی طرف اشارہ کرتاہے :

← توسیع کرنا

← کثرت سے عطا کرنا

→ کشادہ کرنا۔

لفظی طور پر، پہلا نام کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ دوسرا بڑھانے کی طرف اور یہ دو نام دنیا میں موجود تمام چیزوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر اللہ کسی چیز کو گھٹاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے روک دیتا ہے اور اگر کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس میں کثرت عطا کرتا ہے۔

← ہمارا رزق

لوگوں کی زندگی کا رزق ان دو صفات پر منحصر ہے۔ اگرالقابض نے چاہا تو کسی کا رزق روک دے گا۔ اور دوسری طرف اگر اللہ الباسط جب چاہے گا کسی رزق بڑھا دے گا۔

اللہ کا رزق میں توسیع کرنا ہماری عزت میں اضافے یا پھر ہماری آزمائش کے لیے ہوتا ہے اور اس کا ہمارے رزق کو روکنا بھی آزمائش یا حفاظت کے لیے ہے۔

← ہمارے دل

بعض اوقات گناہوں کی وجہ سے، ہم بہت کمزور اورافسردہ محسوس کرتے ہیں۔ ہم ایمان کی لذت محسوس نہیں کر پاتے۔ ہم اس دل کی اس تنگی کو اللہ کی طرف پلٹ کرکم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أَلَا بِذِكْرِ ٱللَّهِ تَطْمَئِنُّ ٱلْقُلُوبُ

خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے (الرعد، 13:28)

اور جب ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے اور ہم پر سکنیت طاری ہوتی ہے اور ہم روحانی طورپر اس دنیا کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ القابض اور الباسط کا یہی معنی ہے کہ اللہ دلوں کو تنگ کردے گا اور اپنی مرضی سے اسے وسعت دے گا۔

ہمارا فرض؟

← امتحان اور آزمائشیں مومن کی زندگی کا حصہ ہیں تاکہ اسے پرکھا جائے- یہ بات جان لو اور دل میں کنندہ کرلو کہ کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آئے گی (انشااللہ)۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی اک بہتریں مثال ہے ۔ ان کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے لیکن انہوں نے کبھی بھی شکایت نہیں کی۔ اگر آپ بھی کبھی کمزور یا دل کی تنگی محسوس کر رہے ہو، تو دل میں وسعت پیدا کرنے کے لیے محنت اور جدو جہد کریں۔

← دوسروں کے لیے کشادگی کا ذریعہ بنیں۔ ان لوگوں میں شامل ہوں جو دوسرے لوگوں کو راحت فراہم کرتے ہیں۔ دوسروں کو اللہ تعالی کی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے ان کے دلوں کو کشادہ کریے کی کوشش کریں۔ !

←ان ناموں کے ساتھ دعوۃ (تبلیغ) کریں۔ اگر آپ دعوۃ کرنے والوں میں سے ہیں تو لوگوں کو اللہ کی رحمت کا یقین دلانے اور اس کے عذاب سے ڈرانے کے درمیان توازن پیدا کریں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کریں تو آپ کوخبردار کرنا ہوگا اور اگر وہ اس کی اطاعت کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ اللہ القابض اور الباسط ہے۔

← اگر اللہ آپ کے رزق کو روکتا ہے یا آپ کو کوئی اور مسئلہ درپیش ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ آپ سے خوش نہیں ہے۔ دراصل ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ملنے والی ہر نعمت ہمارا حق ہے اورہم اپنی ہر محنت اور جدوجہد کا صلہ چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر اللہ کسی چیز کو ہماری بہتری کے لیےواپس لے لیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے- ایسا سوچنا چھوڑ دیجیے۔ اللہ کیا کریں گے آپ سے بلاوجہ کچھ لے کر؟ ہر چیز بہتری کے لیے ہوتی ہے۔

←القابض، الباسط سےاپنے دل کی رہنمائی کی بھیک مانگیں۔ ایک مطمئن دل ایمان سے بھراہوا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا فرماتے تھے:

يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ

(Yaa muqallibal quloob, thabbit qalbee ‘alaa deenik)

اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ

→ الخافض (پست کرنے والا)

الخافض خ-ف-ض (خفض) سے نکلا ہے۔ ایک اونٹ جب اپنا سر نیچے کرتا ہے تو یہ لفظ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے، ایک سلف نے کہا: وہی ہے جو ظالموں کو پست اور ذلیل کرتا ہے۔”

الخافض وہ ذات ہے جو ظالموں کو نیچا دیکھاتی ہے اور کسی بھی زمانے کے متکبر فرعونوں کو رسوا کرتی ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے ذلیل کرسکتا ہے، پست کر سکتا ہے اور اسے غیر معروف اور حقیر بنا سکتا ہے۔

کچھ مثالیں:

کیا آپ ہٹلر کو جانتے ہیں؟ وہ اپنے دور میں ناقابل یقین حد تک طاقتور تھا۔ اس نے اپنے ملک کو عالمی طاقت بنا دیا۔ لیکن وہ طاقت صرف جبر پر مبنی تھی۔ اس نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔ اور آخر کار، وہ ذلیل ہو کر پسپا کر دیا گیا۔ جانتے ہیں اس کا انجام کیا تھا؟ ا س نے خودکشی کر لی تھی۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا طریقہ ہے۔اک وقت میں ہم ظالموں کو بڑی طاقت میں ساتھ دیکھتے ہیں، لیکن آخرکا، وہ پست ہوجاتے ہیں اور بری طرح سے گر جاتے ہیں۔

الخافض صرف ظالم حکمرانوں کے لیے نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پست کر دیتا ہے جو تکبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں(57:23)

اسی لیے جب ابلیس نے کہاتھا کہ: میں اُس(حضرت آدم علیہ سلام) سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے(38:76) تو اسے جنت سے نکال دیا گیا۔ جب فرعون نے کہا کہ میں تمہارا سب سے بڑا ربّ ہوں(79:24) تو وہ سمندر میں ڈوب گیا۔

اداس نہ ہوں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ظالم نہیں ہے۔ اس روئے زمین پر ہر کوئی اپنے کیے کا جوابدہ ہوگا۔ جو لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لیے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں ان سے الخافض خودی نمٹ لے گیں۔ اگرچہ ہم بھول جاتے ہیں مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو مٹی میں دفن تمام لوگ یاد ہیں: کشمیری ہو یا فلسطینی، عراقی ہو یا بوسنیائی، افریقی غلام ہو یا کوئی بھی ذی روح۔ اللہ العلیم (سب کچھ جاننے والا) ہے۔ وہ سب کچھ دیکھتا، سنتا اور جانتا ہے۔ اور کوئی ظلم نظرانداز نہیں کیا جائےگا، ان شاء اللہ۔

ہمارا فرض؟

← الخافض سے ڈریں

اگر الخافض فرعون اور ہٹلر جیسے طاقتور ظالموں کو گرا سکتا ہے تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے اندرایک چھوٹا سا فرعون یا ابلیس موجود ہوتا ہے جو ہمارےتکبر کا جواز ہے؟ یہاں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اللہ کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کریں ورنہ اللہ ہمارے تکبر کی وجہ سے ہمیں رسوا کرے گا۔

من تواضع رفعه الله

جو اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند کر دیتا ہے (مسلم)

← الخافض سے مانگیں

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ عزوجل سے مدد مانگی۔ انھوں نے اللہ سے ان کے دل کو سکون دینے، اس کے لیے ان کے کام کو آسان کرنے اور ان کی زبان سے گرہیں ہٹانے کی دعا کی۔ نیز اللہ سے اپنے بھائی کو اپنا ساتھی بنانے کی بھی درخواست کی۔ اللہ تعالی نے اُن کی دعا پوری کر دی۔ پس اس میں ایک سبق ہے کہ اللہ (الخافض) ہمیشہ اپنے فرمانبردار بندوں کی سنتا ہےـ قیامت اس طرح ہو گی کہ: وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی(56:3)۔ پس اللہ کے لیے روزِآخرت میں سربلندی کی دعا کریں

← الرافع(وہ جو بلندیاں عطا کرتا ہے)

اللہ تعالیٰ الرافع ہیں، جو جسے چن لے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ وہ انسان کو دنیاوی معیارات سے ہٹ کے سر بلندی عطا کرتا ہے۔

:الرافع جس لفظ سے نکلا ہے اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں

اونچا کرنے کے لیے کسی چیز کو بلند کرنا

عزت دار بنانا

اللہ ہی ہیں جو اپنے مومن بندوں کو ان کی اطاعت گزاری کے صلے میں بلند کرتا ہے۔

اللہ کے معیارات

اللہ ان لوگوں کو بلند کرتا ہے جو سچے مومن ہیں، جو قرآن اور احادیث کےمعیارات پر پورا اترتے ہیں۔وہ متقی لوگ جواللہ، آخرت اور انبیاء پر پختہ یقین رکھتے ہیں، انہیں سربلندی عطا فرماتا ہے۔

وہ ان لوگوں کو سربلند کرتا ہے جن کی زبان میں مٹھاس ہوتی ہے، جو کچھ وصول کرنے کے بجائے دینے کو ترجیح دیتے ہیں، بدلے میں کسی چیز کی توقع کیے بغیر مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو تنقید کے بجائے دوسروں کے عیب چھپاتے ہیں، جو تباہ کرنے کے بجائے تعمیر کرتے ہیں۔

وہ ان لوگوں کے دلوں کو بلند اور روشن کرتا ہے جو اللہ کے احکام پر قائم ہیں۔ جو ہر وقت اللہ کی رضا کے لیے کوشاں رہتے ہیں خواہ معاشرہ حرام چیزوں کو کتنا ہی عام کیوں نہ کردے- اللہ فرماتے ہیں۔

تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والےہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا (58:11، المجادلہ)

ہمارا فرض؟

← معاشرہ چاہے کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے۔ حرام رشتے،بری دوستیاں، موسیقی جتنی مرضی معمول پرکیوں نہ آجائے، ہمیشہ ان کی مخالفت کرکے اللہ کی رضا کا خیال رکھیں۔ جیسا کہ اک سلف نے کہا: “یا اللہ، جب تک آپ مجھ سے خوش ہے، مجھے دوسروں کی پرواہ نہیں ہے”۔

← الرافع سے اپنے درجات بلند کرنے کو کہیں۔ اپنے آپ کو تکبر سے بچانے کے لیے مدد مانگیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں(57:23)

← لوگوں کی نشو نما میں مدد کریں۔ صرف ان کو پیچھے چھوڑ کر یا ان کے کھوپڑیوں پر سلطنتیں بنا کر آپ کی کامیابی حقیقی کامیابی نہیں ہے۔ ہمیشہ اپنے دوستوں کو کامیاب بنانے میں مدد کریں۔

← المعز (عزت دینے والا، عطا کرنے والا)

اللہ العزیز ہے جس کو چاہتا ہے طاقت اور عزت دیتا ہے اور اس شخص کو کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا۔ وہی ذات جوجس کو چاہے ذلیل کر دے اور کوئی اس کی عزت کرنے والا نہیں ہوگا۔

المعز کے اصل لفظ کے درج ذیل معنی ہیں:

← طاقتور، مضبوط ہونا

← اعلیٰ اور سربلند ہونا

← معزز ہونا

اللہ العزیز (بڑے اقتدار والا) اور المعز (عزت دینے والا) ہے۔ وہ اپنے فرمانبردار بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کے درجات بلند کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے طاقت دیتا ہے۔ وہ نیک بندے کا درجہ بلند کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی غریب ہو یا امیر۔

اور تو عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور تو ذلیل کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے تیرے ہی ہاتھ میں سب خیر ہے (آل عمران، 3 : 26)

ایمان بڑھا دینے والی کی مثال:

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ لوگوں نے کہا: جو آپ کی رائے ہے وہی ہماری رائے ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ شریف لوگوں میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اسے قبول کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات سنی جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر ایک دوسرا شخص گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! یہ تو مسلمانوں کے فقراء میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اور اگر کچھ کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس پہلے جیسے زمین بھر آدمیوں سے بہتر ہے ۔ (سنن ابن ماجہ 4120)

سبحان اللہ! اس طرح اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کے درجات بلند کرتا ہے۔

ہمارا فرض؟

← اس زمین پر کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔ آپ نہیں جانتے کہ وہ اللہ کے نزدیک کتنے درجات کا مالک ہے- کیونکہ اللہ کسی کے چہرے یا شکلوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔

→ اپنی عبادت اور دوسرے کاموں میں ہمیشہ کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ کی نظر میں معیار بلند کرنے کے لیے آپ کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دل اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (مسلم: 2564) لہٰذا اپنے دلوں کو پاک کرنے کی کوشش کریں اور نیک نیتی کے ساتھ نیک اعمال کریں۔

→ اگر کوئی آپ کی توہین کرتا ہے، یا آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے، تو کوئی حرج نہیں۔ المعز سے ہمیشہ مدد مانگیں۔ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں نہ کہ لوگوں کو۔ آپ کو اللہ سے عزت چاہیے لوگوں سے نہیں۔

جاری ہے………………….

پڑھنے کے لیے جزاک اللہ!
مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اللہ کے نام سیکھنے کے اس سفرِِکمال کے اگلے حصے کے لیے انتظار میں رہیں۔ اس کے علاوہ اللہ کی برکات اورنیکیاں حاصل کرنےاپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔ الله حافظ!

--

--

Talha Tariq
Talha Tariq

Written by Talha Tariq

On the way to be a Software Engineer | Love to write about Islamic & Programming Topics | Founder of Learn & Grow

No responses yet